Showing posts with label قمر جلالوی. Show all posts
Showing posts with label قمر جلالوی. Show all posts

Wednesday, April 8, 2020

نشاں کیونکر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی

نشاں کیونکر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی
بگولوں سے ہماری قبر پہچانی نہیں جاتی
خدائی کی ہے یہ ضد اے بت یہ نادانی نہیں جاتی
زبردستی کی منوائی ہوئی مانی نہیں جاتی
ہزاروں بار مانی حُسن نے ان کی وفاداری
مگر اہلِ محبت ہیں کہ قربانی نہیں جاتی
سحر کے وقت منہ کلیوں نے کھولا ہے پئے شبنم
ہوا ٹھنڈی ہے مگر پیاس بے پانی نہیں جاتی
قمرؔ کل ان کے ہونے سے ستارے کتنے روشن تھے
وہی یہ رات ہے جو آج پہچانی نہیں جاتی

استاد قمر جلالوی

مریض محبت انہی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے

مریضِ محبت انہی کا فسانہ، سناتا رہا دَم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بُجھ گیا جلتے جلتے
انہیں خط میں لکھا تھا دلِ مُضطرب ہے جواب ان کا آیا، محبت نہ کرتے
تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا، بہل جائے گا دل، بہلتے بہلتے
مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے، دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے
بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے
ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت! کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے
وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈُوبے ستارے
قمرؔ اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے

استاد قمر جلالوی