Wednesday, April 8, 2020

دل میں اتر گیا تھا جو دل سے مرے اتر گیا

دل میں اُتر گیا تھا جو دل سے مرے اُتر گیا
چوٹی پہ ایک شخص تھا چوٹی سے گِر کے مر گیا
موجِ سرابِ غم کوئی ہم کو بہا کے لے گئی
خیر کہ یہ بھی سانحہ تاک میں تھا، گزر گیا
جانے تھا کب سے منتظر اُس کی نظر پڑی نہیں
شاخ پہ ایک پھول تھا شاخ پہ ہی بکھر گیا
دشتِ خیال میں یونہی ٹھہرا تھا تھوڑی دیر کو
جھونکا کسی کی یاد کا آنکھوں میں ریت بھر گیا
جانے وہ کیسی آگ تھی دونوں طرف لگی تھی پَر
تیرا تو کچھ نہیں گیا میرا تو پُورا گھر گیا
مجھ کو گلے لگا کے وہ ہنستا رہا تھا دیر تک
بعد میں مَیں بھی ہنس پڑا پہلے تو سچ میں ڈر گیا
جاتا ہے جو بھی اُس طرف آتا نہیں ہے لوٹ کر
جانا نہیں تھا اُس طرف، جانا نہیں تھا، پَر گیا
جہانزیب ساحر

1 comment: