Monday, April 6, 2020

اڑیں پھریں گے ہواؤں میں ساتھ چل میرے

اُڑیں پھریں گے ہواؤں میں ، ساتھ چل میرے
میں لے چلوں تجھے گاؤں میں ، ساتھ چل میرے
بہشت زاد ہوں کشمیر ہے مرا مسکن
تجھے بھی سیر کراؤں میں ، ساتھ چل میرے
تمہارے شہر کا سورج تو آگ اُگلتا ہے
گنے درختوں کی چھاؤں میں ، ساتھ چل میرے
مبادا حبس میں گھٹ جائے تیرا دم شہری
کھلی کشادہ فضاؤں  میں ، ساتھ چل میرے
ہماری گردِ سفر کو زمانہ چھو نہ سکے
پہن کے بجلیاں پاؤں  میں ، ساتھ چل میرے
ہوس کے بھوکے درندے تجھے بھی نوچ نہ لیں
یہاں سے دور خلاؤں  میں ، ساتھ چل میرے
پسے ہوؤں کے لیے ہیں قبیح رسم و رواج
اٹھ ان کو روندھ دے پاؤں  میں ، ساتھ چل میرے
مجھے تو رخت سفر میں یہی بہت ہے کہ ماں
تو ہر قدم پہ دعاؤں  میں ، ساتھ چل میرے
پھر ایک دن مجھے ہمزاد مل گیا کاشرؔ
کہا ، جہاں کہیں جاؤں  میں ، ساتھ چل میرے
شوزیب کاشرؔ

No comments:

Post a Comment