سمجھ میں آ چکے ہیں اور سوچے جا چکے ہیں
مچانوں سے بہت سے تیر چھوڑے جا چکے ہیں
فقط مٹی کی خشبو رہ گئی ہے اس بدن میں
کہ بارش رک چکی ہے اور فرشتے جا چکے ہیں
یہیں پر لا کھڑا کرتی ہے ہر اک بار ہمکو
ہزاروں بار اس آہٹ کے پیچھے جا چکے ہیں
میں تیرے باغ میں موجود ہوں پر تو نہیں ہے
سرہانےپر مرے کچھ پھول رکھے جا چکے ہیں
تمھارے پاس کوئی روشنی ہے تو دکھا ئو
ہماری آنکھ سے تو خواب چھینے جا چکے ہیں
غزل محبوب سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے
تمھاری بے رخی پر شعر لکھے جا چکے ہیں
فیضان ہاشمی
No comments:
Post a Comment