بتائیں تو کیا اب بتائیں، ہماری جو اس میں خرابی ہوئی ہے
پر اس کو بھلانے کی کوشش میں تھوڑی بہت کامیابی ہوئی ہے
ہمیشہ خدا تیرے ہونٹوں اور آنکھوں کو یوں ہی تروتازہ رکھے
تجھے کچھ پتا ہے یہاں کس طرح ایک دنیا شرابی ہوئی ہے؟
پرندے تو کیا ان درختوں پہ پتے بھی کچھ دیر پہلے نہیں تھے
اُسے پھول دے کر میں پلٹا تو رستے کی رنگت گلابی ہوئی ہے
اکیلے لبوں کی گذارش پہ بارش نے ہرگز برسنا نہیں تھا
ہوئی ہیں یہ آنکھیں بھی شامل تو جا کر زمین اپنی آبی ہوئی ہے
اسے لگ رہا تھا کہ اس کی سبھی مشکلوں کا سبب ایک میں ہوں
اِسی کے تو پیشِ نظر مجھ سے پچھلے دنوں وہ جدا بھی ہوئی ہے
حسن ظہیر راجا
The influential poetry are those words that enter from the ear to.Poetry can provide a mirror for us to see ourselves, and a window into others' experiences. Here are the poetry collections
Wednesday, April 8, 2020
بتائیں تو کیا اب بتائیں ہماری جو اس میں خرابی ہوئی ہے
Labels:
حسن ظہیر راجا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment