Thursday, April 9, 2020

Idle Dreams

Idle Dreams

In idle dreams of long ago,
I imagined my true love;
A perfect match, a soulmate,
An angel from above.

Now you’re here, and now I know
Our love will stay and thrive and grow.

By Joanna Fuchs

Wednesday, April 8, 2020

کیا ہو گیا کیسی رت پلٹی مرا چین گیا مری نیند گئی

کیا ہو گیا کیسی رت پلٹی مرا چین گیا مری نیند گئی
کھلتی ہی نہیں اب دل کی کلی مرا چین گیا مری نیند گئی
میں لاکھ رہوں یوں ہی خاک بسر شاداب رہیں ترے شام و سحر
نہیں اس کا مجھے شکوہ بھی کوئی مرا چین گیا مری نیند گئی
میں کب سے ہوں آس لگائے ہوئے اک شمع امید جلائے ہوئے
کوئی لمحہ سکوں کا ملے تو سہی مرا چین گیا مری نیند گئی
جاویدؔ کبھی میں شاداں تھا مرے ساتھ طرب کا طوفاں تھا
پھر زندگی مجھ سے روٹھ گئی مرا چین گیا مری نیند گئی
فرید جاوید

بتائیں تو کیا اب بتائیں ہماری جو اس میں خرابی ہوئی ہے

بتائیں تو کیا اب بتائیں، ہماری جو اس میں خرابی ہوئی ہے
پر اس کو بھلانے کی کوشش میں تھوڑی بہت کامیابی ہوئی ہے
ہمیشہ خدا تیرے ہونٹوں اور آنکھوں کو یوں ہی تروتازہ رکھے
تجھے کچھ پتا ہے یہاں کس طرح ایک دنیا شرابی ہوئی ہے؟
پرندے تو کیا ان درختوں پہ پتے بھی کچھ دیر پہلے نہیں تھے
اُسے پھول دے کر میں پلٹا تو رستے کی رنگت گلابی ہوئی ہے
اکیلے لبوں کی گذارش پہ بارش نے ہرگز برسنا نہیں تھا
ہوئی ہیں یہ آنکھیں بھی شامل تو جا کر زمین اپنی آبی ہوئی ہے
اسے لگ رہا تھا کہ اس کی سبھی مشکلوں کا سبب ایک میں ہوں
اِسی کے تو پیشِ نظر مجھ سے پچھلے دنوں وہ جدا بھی ہوئی ہے
حسن ظہیر راجا

دل میں اتر گیا تھا جو دل سے مرے اتر گیا

دل میں اُتر گیا تھا جو دل سے مرے اُتر گیا
چوٹی پہ ایک شخص تھا چوٹی سے گِر کے مر گیا
موجِ سرابِ غم کوئی ہم کو بہا کے لے گئی
خیر کہ یہ بھی سانحہ تاک میں تھا، گزر گیا
جانے تھا کب سے منتظر اُس کی نظر پڑی نہیں
شاخ پہ ایک پھول تھا شاخ پہ ہی بکھر گیا
دشتِ خیال میں یونہی ٹھہرا تھا تھوڑی دیر کو
جھونکا کسی کی یاد کا آنکھوں میں ریت بھر گیا
جانے وہ کیسی آگ تھی دونوں طرف لگی تھی پَر
تیرا تو کچھ نہیں گیا میرا تو پُورا گھر گیا
مجھ کو گلے لگا کے وہ ہنستا رہا تھا دیر تک
بعد میں مَیں بھی ہنس پڑا پہلے تو سچ میں ڈر گیا
جاتا ہے جو بھی اُس طرف آتا نہیں ہے لوٹ کر
جانا نہیں تھا اُس طرف، جانا نہیں تھا، پَر گیا
جہانزیب ساحر

کوئی مجنون میر بیٹھا ہے

کوئی مجنونِ میر بیٹھا ہے
سمجھو  میرا وہ پیر بیٹھا ہے
وہ اگر مڑ کے دیکھ لے مجھ کو
پھر نشانے پہ تیر بیٹھا ہے
تیری شیریں نے خود کُشی کر لی
تو لبِ جوئے شیر بیٹھا ہے
ہوں معطر کہ دل کے کعبہ میں
خوشبوؤں کا سفیر بیٹھا ہے
تم نے آنا ہے یا نہیں آنا
راستے پر فقیر بیٹھا ہے
اک تعفن سا اٹھ رہا ہے یاں
کیا کوئی بے ضمیر بیٹھا ہے
سانپ کب کا نکل گیا خالد
پیٹتا ہے لکیر ،  بیٹھا ہے
خالد ندیم شانی

آنکھ سے آنسو گرے آئینے سے ریت گری

آنکھ سے آنسو گرے آئینے سے ریت گری
پانی سے کھنچی تھی تصویر مگر آہی گئی
آخری بار وہ بھیگی ہوئی آنکھیں دیکھیں
اور پھر ان میں بسے خواب پہ تنقید کری
یاد آیا تو کہاں چھوڑ کے آیا تھا مجھے
دل کے اندر کوئی تکلیف سی محسوس ہوئی
ایک دیوار نے دونوں کو اندھیرے میں رکھا
اور پھر رات سے پہلے ہی ہمیں چاٹ گئی
سیر پر آئے کسی شخص کے بارے میں سنا
اک عمارت پہ بنی تیسری کھڑکی چونکی
کتنے قطرے کیے گمراہ سمندر کہہ کر
کتنے ذرات کی طاقت سے تباہی ہو گی ؟
ایک جنگل پہ مری بھوک کا مذہب اترا
ایک دریا پہ مری پیاس کی تہذیب بنی
کچھ کتابوں میں ترے باغ کے بارے میں پڑھا
اور پھر تیری کئی لوگوں سے تعریف سنی
فیضان ہاشمی

دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک

دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک
چوباروں کے سر پر خاک
شہر ملامت آپہنچا
سارے مناظر عبرت ناک
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
تیری نظر سے بچ پائیں
ایسے کہاں کے ہم چالاک
دامن بچنا مشکل ہے
رستے جنوں کے آتش ناک
اور کہاں تک صبر کریں
کرنا پڑے گا سینہ چاک

آشفتہ چنگیزی