جستجو حیران بازاروں کے بیچ
کھو گئے ہیں راستے کاروں کے بیچ
تنگ ہوتی جا رہی ہے یہ زمیں
سر نکل آئے ہیں دیواروں کے بیچ
ہر طرف آلودگی ماحول میں
جنگ چھڑ جائے نہ سیّاروں کے بیچ
یہ ترقی واپسی ثابت نہ ہو
پھر نہ پہنچے آدمی غاروں کے بیچ
آنسوؤں کے ہیں نشاں ہر سطر میں
مُسکراہٹ گُم ہے اخباروں کے بیچ
ظُلم پر خاموش رہنا جُرم ہے
ہم بھی شامل ہیں گنہگاروں کے بیچ
ایک تختی امن کے پیغام کی
ٹانگ دیجئے اونچے میناروں کے بیچ
عزیز نبیلؔ
No comments:
Post a Comment