Monday, April 6, 2020

ہم کیوں سمجھ رہے تھے کہ ناو کے ساتھ ہے

ہم کیوں سمجھ رہے تھے کہ ناو کے ساتھ ہے
دریا تو صرف اپنے بہاو کے ساتھ ہے
پانی پگھل کے ہونٹ تک آتا ہے دیر سے
اک برف کی چٹان الاو کے ساتھ ہے
دل کی کُشادگی پہ وہ حیراں ہے کس لیے
یہ زخم ابتدا سے کٹاو کے ساتھ ہے
سلوٹ کوئی نہ آئے گی اس سائبان میں
یعنی طنابِ خیمہ کھنچاو کے ساتھ ہے
یہ جس جگہ کہے گا ٹھہر جاؤں گا وہیں
میرا پڑاؤ دل کے پڑاو کے ساتھ ہے
رشتے کو ڈھیل دینے میں شاید نہ آ سکے
وہ خوب صورتی جو تناو کے ساتھ ہے
ہم نے ہی ٹیڑھ پن کو یہاں عام کر دیا
ورنہ حیات سیدھے سبھاو کے ساتھ ہے
میری غزل کے باب میں احباب نے کہا
ہر لفظ اس میں اپنے رچاو کے ساتھ ہے
ذروں کی دھن پہ رقصاں ہیں آزر مہ و نجوم
کیا آسماں زمیں کے گھماو کے ساتھ ہے
دلاورعلی آزر

No comments:

Post a Comment