ہم کیوں سمجھ رہے تھے کہ ناو کے ساتھ ہے
دریا تو صرف اپنے بہاو کے ساتھ ہے
پانی پگھل کے ہونٹ تک آتا ہے دیر سے
اک برف کی چٹان الاو کے ساتھ ہے
دل کی کُشادگی پہ وہ حیراں ہے کس لیے
یہ زخم ابتدا سے کٹاو کے ساتھ ہے
سلوٹ کوئی نہ آئے گی اس سائبان میں
یعنی طنابِ خیمہ کھنچاو کے ساتھ ہے
یہ جس جگہ کہے گا ٹھہر جاؤں گا وہیں
میرا پڑاؤ دل کے پڑاو کے ساتھ ہے
رشتے کو ڈھیل دینے میں شاید نہ آ سکے
وہ خوب صورتی جو تناو کے ساتھ ہے
ہم نے ہی ٹیڑھ پن کو یہاں عام کر دیا
ورنہ حیات سیدھے سبھاو کے ساتھ ہے
میری غزل کے باب میں احباب نے کہا
ہر لفظ اس میں اپنے رچاو کے ساتھ ہے
ذروں کی دھن پہ رقصاں ہیں آزر مہ و نجوم
کیا آسماں زمیں کے گھماو کے ساتھ ہے
دلاورعلی آزر
The influential poetry are those words that enter from the ear to.Poetry can provide a mirror for us to see ourselves, and a window into others' experiences. Here are the poetry collections
Monday, April 6, 2020
ہم کیوں سمجھ رہے تھے کہ ناو کے ساتھ ہے
Labels:
دلاور علی آزر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment