Wednesday, April 8, 2020

کون سمجھے گا مرے بعد اشارے اس کے

کون سمجھے گا مرے بعد اشارے اس کے
ٹوٹ کر خاک میں ملتے ہیں ستارے اس کے
اب ہمیں آنکھ اٹھا کر نہیں تکتا وہ شخص
کتنے مضبوط مراسم تھے ہمارے اس کے
جو سمندر مرے اطراف رواں ہے سرِ خاک
ڈھونڈتا رہتا ہوں دن رات کنارے اس کے
اس کا نقصان حقیقت میں مرا اپنا ہے
میرے حصے ہی میں آتے ہیں خسارے اس کے
کتنی آسانی سے دیکھا تھا اسے پتھر میں
کتنی مشکل سے خدو خال سنوارے اس کے
صوت میں جتنا خلا ہے اسے پر کر دے صدا
اس تسلسل سے کوئی نام پکارے اس کے
ختم ہو سکتی ہے اظہر یہ لڑائی اپنی
اب بھی کچھ لوگ سلامت ہیں ہمارے اس کے
محمود اظہر

No comments:

Post a Comment