Monday, April 6, 2020

آنکھ میں جتنےخواب بسےتھے ٹوٹ کے چکنا چور ہوئے

آنکھ میں جتنےخواب بسےتھے ٹوٹ کے چکنا چور ہوئے
جو یہ منظر دیکھ رہے تھے ڈر کر فوراً دور ہوئے
رات عجب اک خوف بپاتھاہوش کی خالی گلیوں میں
باری باری بہہ جانے پر سب آنسو مجبور ہوئے
میں نے اپنی پیشانی پہ سرمےسے اک اسم لکھا
اور پلٹ کر جب دیکھاتوسارے پربت طُورہوئے
ایک کہانی یہ بھی تھی کہ ہم نے گھٹنے ٹیک دئیے
ایک فسانہ یہ بھی تھا کہ ہم کتنے مغرور  ہوئے
تجھ سے پہلےمیں نےساری اچھی غزلیں لکھی تھیں
لیکن تجھ کوسامنے پا کرسب مصرعے کافور ہوئے
میری کہانی لوگوں تک تیری آنکھوں نے پہنچائی
میرے لئے جو  تو نے دیکھے وہ سپنے مشہور ہوئے
میں نے کتنی بار نہ جانے کل خود پر انجیل پڑھی
دل پر دم کا پانی چھڑکا تب اچھے  ناسور ہوئے
انجیل صحیفہ

No comments:

Post a Comment