Idle Dreams
In idle dreams of long ago,
I imagined my true love;
A perfect match, a soulmate,
An angel from above.
Now you’re here, and now I know
Our love will stay and thrive and grow.
By Joanna Fuchs
The influential poetry are those words that enter from the ear to.Poetry can provide a mirror for us to see ourselves, and a window into others' experiences. Here are the poetry collections
Idle Dreams
In idle dreams of long ago,
I imagined my true love;
A perfect match, a soulmate,
An angel from above.
Now you’re here, and now I know
Our love will stay and thrive and grow.
By Joanna Fuchs
کیا ہو گیا کیسی رت پلٹی مرا چین گیا مری نیند گئی
کھلتی ہی نہیں اب دل کی کلی مرا چین گیا مری نیند گئی
میں لاکھ رہوں یوں ہی خاک بسر شاداب رہیں ترے شام و سحر
نہیں اس کا مجھے شکوہ بھی کوئی مرا چین گیا مری نیند گئی
میں کب سے ہوں آس لگائے ہوئے اک شمع امید جلائے ہوئے
کوئی لمحہ سکوں کا ملے تو سہی مرا چین گیا مری نیند گئی
جاویدؔ کبھی میں شاداں تھا مرے ساتھ طرب کا طوفاں تھا
پھر زندگی مجھ سے روٹھ گئی مرا چین گیا مری نیند گئی
فرید جاوید
بتائیں تو کیا اب بتائیں، ہماری جو اس میں خرابی ہوئی ہے
پر اس کو بھلانے کی کوشش میں تھوڑی بہت کامیابی ہوئی ہے
ہمیشہ خدا تیرے ہونٹوں اور آنکھوں کو یوں ہی تروتازہ رکھے
تجھے کچھ پتا ہے یہاں کس طرح ایک دنیا شرابی ہوئی ہے؟
پرندے تو کیا ان درختوں پہ پتے بھی کچھ دیر پہلے نہیں تھے
اُسے پھول دے کر میں پلٹا تو رستے کی رنگت گلابی ہوئی ہے
اکیلے لبوں کی گذارش پہ بارش نے ہرگز برسنا نہیں تھا
ہوئی ہیں یہ آنکھیں بھی شامل تو جا کر زمین اپنی آبی ہوئی ہے
اسے لگ رہا تھا کہ اس کی سبھی مشکلوں کا سبب ایک میں ہوں
اِسی کے تو پیشِ نظر مجھ سے پچھلے دنوں وہ جدا بھی ہوئی ہے
حسن ظہیر راجا
دل میں اُتر گیا تھا جو دل سے مرے اُتر گیا
چوٹی پہ ایک شخص تھا چوٹی سے گِر کے مر گیا
موجِ سرابِ غم کوئی ہم کو بہا کے لے گئی
خیر کہ یہ بھی سانحہ تاک میں تھا، گزر گیا
جانے تھا کب سے منتظر اُس کی نظر پڑی نہیں
شاخ پہ ایک پھول تھا شاخ پہ ہی بکھر گیا
دشتِ خیال میں یونہی ٹھہرا تھا تھوڑی دیر کو
جھونکا کسی کی یاد کا آنکھوں میں ریت بھر گیا
جانے وہ کیسی آگ تھی دونوں طرف لگی تھی پَر
تیرا تو کچھ نہیں گیا میرا تو پُورا گھر گیا
مجھ کو گلے لگا کے وہ ہنستا رہا تھا دیر تک
بعد میں مَیں بھی ہنس پڑا پہلے تو سچ میں ڈر گیا
جاتا ہے جو بھی اُس طرف آتا نہیں ہے لوٹ کر
جانا نہیں تھا اُس طرف، جانا نہیں تھا، پَر گیا
جہانزیب ساحر
کوئی مجنونِ میر بیٹھا ہے
سمجھو میرا وہ پیر بیٹھا ہے
وہ اگر مڑ کے دیکھ لے مجھ کو
پھر نشانے پہ تیر بیٹھا ہے
تیری شیریں نے خود کُشی کر لی
تو لبِ جوئے شیر بیٹھا ہے
ہوں معطر کہ دل کے کعبہ میں
خوشبوؤں کا سفیر بیٹھا ہے
تم نے آنا ہے یا نہیں آنا
راستے پر فقیر بیٹھا ہے
اک تعفن سا اٹھ رہا ہے یاں
کیا کوئی بے ضمیر بیٹھا ہے
سانپ کب کا نکل گیا خالد
پیٹتا ہے لکیر ، بیٹھا ہے
خالد ندیم شانی
آنکھ سے آنسو گرے آئینے سے ریت گری
پانی سے کھنچی تھی تصویر مگر آہی گئی
آخری بار وہ بھیگی ہوئی آنکھیں دیکھیں
اور پھر ان میں بسے خواب پہ تنقید کری
یاد آیا تو کہاں چھوڑ کے آیا تھا مجھے
دل کے اندر کوئی تکلیف سی محسوس ہوئی
ایک دیوار نے دونوں کو اندھیرے میں رکھا
اور پھر رات سے پہلے ہی ہمیں چاٹ گئی
سیر پر آئے کسی شخص کے بارے میں سنا
اک عمارت پہ بنی تیسری کھڑکی چونکی
کتنے قطرے کیے گمراہ سمندر کہہ کر
کتنے ذرات کی طاقت سے تباہی ہو گی ؟
ایک جنگل پہ مری بھوک کا مذہب اترا
ایک دریا پہ مری پیاس کی تہذیب بنی
کچھ کتابوں میں ترے باغ کے بارے میں پڑھا
اور پھر تیری کئی لوگوں سے تعریف سنی
فیضان ہاشمی
دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک
چوباروں کے سر پر خاک
شہر ملامت آپہنچا
سارے مناظر عبرت ناک
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
تیری نظر سے بچ پائیں
ایسے کہاں کے ہم چالاک
دامن بچنا مشکل ہے
رستے جنوں کے آتش ناک
اور کہاں تک صبر کریں
کرنا پڑے گا سینہ چاک
آشفتہ چنگیزی
مجھے شکوہ نہیں برباد رکھ برباد رہنے دے
مگر اللہ میرے دل میں اپنی یاد رہنے دے
قفس میں قید رکھ یا قید سے آزاد رہنے دے
بہر صورت چمن ہی میں مجھے صیاد رہنے دے
مرے ناشاد رہنے سے اگر تجھ کو مسرت ہے
تو میں ناشاد ہی اچھا، مجھے ناشاد رہنے دے
تری شان تغافل پر، مری بربادیاں صدقے
جو برباد تمنا ہو، اسے برباد رہنے دے
تجھے جتنے ستم آتے ہیں مجھ پر ختم کر دینا
نہ کوئی ظلم رہ جائے نہ اب بیداد رہنے دے
نہ صحرا میں بہلتا ہے نہ کوئے یار میں ٹھہرے
کہیں تو چین سے مجھ کو دل ناشاد رہنے دے
کچھ اپنی گزری ہی بیدمؔ بھلی معلوم ہوتی ہے
مری بیتی سنا دے، قصۂ فرہاد رہنے دے
بیدم شاہ وارثی
کون سمجھے گا مرے بعد اشارے اس کے
ٹوٹ کر خاک میں ملتے ہیں ستارے اس کے
اب ہمیں آنکھ اٹھا کر نہیں تکتا وہ شخص
کتنے مضبوط مراسم تھے ہمارے اس کے
جو سمندر مرے اطراف رواں ہے سرِ خاک
ڈھونڈتا رہتا ہوں دن رات کنارے اس کے
اس کا نقصان حقیقت میں مرا اپنا ہے
میرے حصے ہی میں آتے ہیں خسارے اس کے
کتنی آسانی سے دیکھا تھا اسے پتھر میں
کتنی مشکل سے خدو خال سنوارے اس کے
صوت میں جتنا خلا ہے اسے پر کر دے صدا
اس تسلسل سے کوئی نام پکارے اس کے
ختم ہو سکتی ہے اظہر یہ لڑائی اپنی
اب بھی کچھ لوگ سلامت ہیں ہمارے اس کے
محمود اظہر
میں ہوں عاصی کہ پر خطا، کچھ ہوں
تیرا بندہ ہوں اے خدا کچھ ہوں
جزو کل کو نہیں سمجھتا میں
دل میں تھوڑا سا جانتا کچھ ہوں
تجھ سے الفت نباہتا ہوں میں
با وفا ہوں کہ بے وفا کچھ ہوں
نشۂ عشق لے اڑا ہے مجھے
اب مزے میں اڑا رہا کچھ ہوں
خواب میں اس میں بھی دیکھتا کچھ ہوں
گرچہ کچھ بھی نہیں ہوں میں لیکن
اس پہ بھی کچھ نہ پوچھو کیا کچھ ہوں
سمجھے وہ اپنا خاکسار مجھے
خاکِ رہ ہوں کہ خاکِ پا کچھ ہوں
چشمِ الطاف فخرِ دیں سے ہوں
اے ظفرؔ کچھ سے ہو گیا کچھ ہوں
بہادر شاہ ظفر
غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے
مرے لیے مری ہمشیر ماؤں جیسی ہے
بھٹکتا ہوں تو مجھے راستہ دکھاتی ہے
وہ ہمسفر ہے، مگر رہنماؤں جیسی ہے
ہو جیسے ایک ہی کنبے کی ساری آبادی
فضا ہمارے محلے کی گاؤں جیسی ہے
نئے بشر نے مسخّر کیے مہ و انجم
نئے دماغ میں وسعت خلاؤں جیسی ہے
حقیقتوں کے مقابل ٹھہر نہیں سکتی
پرانی فکر بھی جھوٹے خداؤں جیسی ہے
خلانوردوں کی منزل نہیں پڑاؤ ہے
مثال چاند کی سپراؔ سراؤں جیسی ہے
تنویر سپرا
نشاں کیونکر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی
بگولوں سے ہماری قبر پہچانی نہیں جاتی
خدائی کی ہے یہ ضد اے بت یہ نادانی نہیں جاتی
زبردستی کی منوائی ہوئی مانی نہیں جاتی
ہزاروں بار مانی حُسن نے ان کی وفاداری
مگر اہلِ محبت ہیں کہ قربانی نہیں جاتی
سحر کے وقت منہ کلیوں نے کھولا ہے پئے شبنم
ہوا ٹھنڈی ہے مگر پیاس بے پانی نہیں جاتی
قمرؔ کل ان کے ہونے سے ستارے کتنے روشن تھے
وہی یہ رات ہے جو آج پہچانی نہیں جاتی
استاد قمر جلالوی
مریضِ محبت انہی کا فسانہ، سناتا رہا دَم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بُجھ گیا جلتے جلتے
انہیں خط میں لکھا تھا دلِ مُضطرب ہے جواب ان کا آیا، محبت نہ کرتے
تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا، بہل جائے گا دل، بہلتے بہلتے
مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے، دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے
بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے
ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت! کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے
وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈُوبے ستارے
قمرؔ اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے
استاد قمر جلالوی
جستجو حیران بازاروں کے بیچ
کھو گئے ہیں راستے کاروں کے بیچ
تنگ ہوتی جا رہی ہے یہ زمیں
سر نکل آئے ہیں دیواروں کے بیچ
ہر طرف آلودگی ماحول میں
جنگ چھڑ جائے نہ سیّاروں کے بیچ
یہ ترقی واپسی ثابت نہ ہو
پھر نہ پہنچے آدمی غاروں کے بیچ
آنسوؤں کے ہیں نشاں ہر سطر میں
مُسکراہٹ گُم ہے اخباروں کے بیچ
ظُلم پر خاموش رہنا جُرم ہے
ہم بھی شامل ہیں گنہگاروں کے بیچ
ایک تختی امن کے پیغام کی
ٹانگ دیجئے اونچے میناروں کے بیچ
عزیز نبیلؔ
|
Sad Urdu Poetry by Jaun Elia |
|
John Elia Poetry Facebook |
Jaun Elia Poetry in Urdu SMS |
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا
نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا
شکست حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا
نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا
دہائی ہے مرے اللہ کی دہائی ہے
کسی نے مجھ سے بھی مجھ کو چھپا کے لوٹ لیا
سلام اس پہ کہ جس نے اٹھا کے پردۂ دل
مجھی میں رہ کے مجھی میں سما کے لوٹ لیا
انہیں کے دل سے کوئی اس کی عظمتیں پوچھے
وہ ایک دل جسے سب کچھ لٹا کے لوٹ لیا
یہاں تو خود تری ہستی ہے عشق کو درکار
وہ اور ہوں گے جنہیں مسکرا کے لوٹ لیا
خوشا وہ جان جسے دی گئی امانت عشق
رہے وہ دل جسے اپنا بنا کے لوٹ لیا
نگاہ ڈال دی جس پر حسین آنکھوں نے
اسے بھی حسن مجسم بنا کے لوٹ لیا
بڑے وہ آئے دل و جاں کے لوٹنے والے
نظر سے چھیڑ دیا گدگدا کے لوٹ لیا
رہا خراب محبت ہی وہ جسے تو نے
خود اپنا درد محبت دکھا کے لوٹ لیا
کوئی یہ لوٹ تو دیکھے کہ اس نے جب چاہا
تمام ہستئ دل کو جگا کے لوٹ لیا
کرشما سازی حسن ازل ارے توبہ
مرا ہی آئینہ مجھ کو دکھا کے لوٹ لیا
نہ لٹتے ہم مگر ان مست انکھڑیوں نے جگرؔ
نظر بچاتے ہوئے ڈبڈبا کے لوٹ لیا
جگر مراد آبادی
آنکھ میں جتنےخواب بسےتھے ٹوٹ کے چکنا چور ہوئے
جو یہ منظر دیکھ رہے تھے ڈر کر فوراً دور ہوئے
رات عجب اک خوف بپاتھاہوش کی خالی گلیوں میں
باری باری بہہ جانے پر سب آنسو مجبور ہوئے
میں نے اپنی پیشانی پہ سرمےسے اک اسم لکھا
اور پلٹ کر جب دیکھاتوسارے پربت طُورہوئے
ایک کہانی یہ بھی تھی کہ ہم نے گھٹنے ٹیک دئیے
ایک فسانہ یہ بھی تھا کہ ہم کتنے مغرور ہوئے
تجھ سے پہلےمیں نےساری اچھی غزلیں لکھی تھیں
لیکن تجھ کوسامنے پا کرسب مصرعے کافور ہوئے
میری کہانی لوگوں تک تیری آنکھوں نے پہنچائی
میرے لئے جو تو نے دیکھے وہ سپنے مشہور ہوئے
میں نے کتنی بار نہ جانے کل خود پر انجیل پڑھی
دل پر دم کا پانی چھڑکا تب اچھے ناسور ہوئے
انجیل صحیفہ
ہم کیوں سمجھ رہے تھے کہ ناو کے ساتھ ہے
دریا تو صرف اپنے بہاو کے ساتھ ہے
پانی پگھل کے ہونٹ تک آتا ہے دیر سے
اک برف کی چٹان الاو کے ساتھ ہے
دل کی کُشادگی پہ وہ حیراں ہے کس لیے
یہ زخم ابتدا سے کٹاو کے ساتھ ہے
سلوٹ کوئی نہ آئے گی اس سائبان میں
یعنی طنابِ خیمہ کھنچاو کے ساتھ ہے
یہ جس جگہ کہے گا ٹھہر جاؤں گا وہیں
میرا پڑاؤ دل کے پڑاو کے ساتھ ہے
رشتے کو ڈھیل دینے میں شاید نہ آ سکے
وہ خوب صورتی جو تناو کے ساتھ ہے
ہم نے ہی ٹیڑھ پن کو یہاں عام کر دیا
ورنہ حیات سیدھے سبھاو کے ساتھ ہے
میری غزل کے باب میں احباب نے کہا
ہر لفظ اس میں اپنے رچاو کے ساتھ ہے
ذروں کی دھن پہ رقصاں ہیں آزر مہ و نجوم
کیا آسماں زمیں کے گھماو کے ساتھ ہے
دلاورعلی آزر
یہ وہم جانے میرے دل سے کیوں نکل نہیں رہا
کہ اُس کا بھی مری طرح سے جی سنبھل نہیں رہا
کوئی ورق دکھا جو اشکِ خوں سے تر بتر نہ ہو
کوئی غزل دکھا جہاں وہ داغ جل نہیں رہا
میں ایک ہجرِ بے مُراد جھیلتا ہوں رات دن
جو ایسے صبر کی طرح ہے جس کا پھل نہیں رہا
تو اب مرے تمام رنج مستقل رہیں گے کیا
تو کیا تمہاری خامشی کا کوئی حل نہیں رہا
کڑی مسافتوں نے کس کے پاؤں شل نہیں کیے
کوئی دکھاؤ جو بچھڑ کے ہاتھ مل نہیں رہا
جواد شیخ
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بےخیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر، انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ھیں
ہر طرف کن انکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
شاید اسطرح کوئی راستہ ہی مل جاٴے
بے نشاں جوابوں کا،کچھ پتا ہی مل جاٴے
مجھ کو دیکھتے ھیں تو
یوں جواب کاپی پر ،حاشیے لگاتے ھیں
دائرے بناتے ھیں
جیسے انکو پرچے کے سب جواب آتے ھیں
اس طرح کے منظر میں
امتحان گاہوں میں دیکھتا ھی رہتا تھا
نقل کرنے والوں کے
نت نئے طریقوں سے
آپ لطف لیتا تھا، دوستوں سے کہتا تھا
کس طرف سے جانے یہ
آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے
سینکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے
وقت کی عدالت میں
زندگی کی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں، اک سوال نامہ ہے
کس نے یہ بنایا ہے
کس لئے بنایا ہے
کچھ سمجھ میں آیا ہے؟
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ھیں سب سوال مشکل ھیں
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
حاشیے لگاتا ہوں
دائرے بناتا ہوں
یا سوال نامے کودیکھتا ہی جاتا ہوں
امجد اسلام امجد
دیوار خواب میں کوئی در کر نہیں سکے
ہم لوگ شب سے آگے سفر کر نہیں سکے
شاید ابھی رہائی نہی چاہتے تھے ہم
سو اس کو اپنی کوئی خبر کر نہیں سکے
ہم لوگ تیری کھوج میں پہنچے میان_شںب
بھٹکے کچھ اس طرح کہ سحر کر نہیں سکے
ہم کار زندگی کی طرح کار عاشقی
کرنا تو چاہتے تھے مگر کر نہیں سکے
آنکھوں پہ کس کے خواب کا پردہ پڑا رہا
ہم چاہ کے بھی خود پہ نظر کر نہیں سکے
تم سے بھی پہلے کتنوں نے کھائی یہاں شکست
دنیا کو فتح تم بھی اگر کر نہیں سکے؟
مہندر کمار ثانی
یہ کھائی مسئلے کا حل نہیں ہے
جدائی مسئلے کا حل نہیں ہے
زمینی مسئلوں کا حل نکالو
خدائی مسئلے کا حل نہیں ہے
لڑائی ہی ہمارا مسئلہ ہے
لڑائی مسئلے کا حل نہیں ہے!
تُو پھر سے آ گیا ہے منہ اٹھا کے
او بھائی ! مسئلے کا حل نہیں ہے
انہیں دنیا میں جینا بھی سکھاؤ
رہائی مسئلے کا حل نہیں ہے
ان اینٹوں کو سمندر برد کر دو
ترائی مسئلے کا حل نہیں ہے
لگاؤ سوچ کی گردن کو پھندہ
یہ ٹائی مسئلے کا حل نہیں ہے!
راز احتشام
سمجھ میں آ چکے ہیں اور سوچے جا چکے ہیں
مچانوں سے بہت سے تیر چھوڑے جا چکے ہیں
فقط مٹی کی خشبو رہ گئی ہے اس بدن میں
کہ بارش رک چکی ہے اور فرشتے جا چکے ہیں
یہیں پر لا کھڑا کرتی ہے ہر اک بار ہمکو
ہزاروں بار اس آہٹ کے پیچھے جا چکے ہیں
میں تیرے باغ میں موجود ہوں پر تو نہیں ہے
سرہانےپر مرے کچھ پھول رکھے جا چکے ہیں
تمھارے پاس کوئی روشنی ہے تو دکھا ئو
ہماری آنکھ سے تو خواب چھینے جا چکے ہیں
غزل محبوب سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے
تمھاری بے رخی پر شعر لکھے جا چکے ہیں
فیضان ہاشمی
اُڑیں پھریں گے ہواؤں میں ، ساتھ چل میرے
میں لے چلوں تجھے گاؤں میں ، ساتھ چل میرے
بہشت زاد ہوں کشمیر ہے مرا مسکن
تجھے بھی سیر کراؤں میں ، ساتھ چل میرے
تمہارے شہر کا سورج تو آگ اُگلتا ہے
گنے درختوں کی چھاؤں میں ، ساتھ چل میرے
مبادا حبس میں گھٹ جائے تیرا دم شہری
کھلی کشادہ فضاؤں میں ، ساتھ چل میرے
ہماری گردِ سفر کو زمانہ چھو نہ سکے
پہن کے بجلیاں پاؤں میں ، ساتھ چل میرے
ہوس کے بھوکے درندے تجھے بھی نوچ نہ لیں
یہاں سے دور خلاؤں میں ، ساتھ چل میرے
پسے ہوؤں کے لیے ہیں قبیح رسم و رواج
اٹھ ان کو روندھ دے پاؤں میں ، ساتھ چل میرے
مجھے تو رخت سفر میں یہی بہت ہے کہ ماں
تو ہر قدم پہ دعاؤں میں ، ساتھ چل میرے
پھر ایک دن مجھے ہمزاد مل گیا کاشرؔ
کہا ، جہاں کہیں جاؤں میں ، ساتھ چل میرے
شوزیب کاشرؔ
کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں
بندے بھی ہو گئے ہیں خدا تیرے شہر میں
تو اور حریمِ ناز میں پابستۂ حنا
ہم پھر رہے ہیں آبلہ پا تیرے شہر میں
کیا جانے کیا ہوا کے پریشان ہو گئی
اک لحظہ رک گئی تھی صبا تیرے شہر میں
کچھ دشمنی کا ڈھنگ ہے نہ اب دوستی کے طور
دونوں کا ایک رنگ ہوا تیرے شہر میں
شاید انہیں پتہ تھا کے خاطرؔ ہے اجنبی
لوگوں نے اس کو لوٹ لیا تیرے شہر میں
خاطر غزنوی
ہمارے نام شجر پر لکھے ہوئے تھے جہاں
وہیں کسی نے لکھا, كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
ہم اہلِ عشق بھی کمزور پڑ گئے شاید
ہمیں بھی کہنا پڑا ، كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
عباس تابش
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ = سب کے سب جو اس زمین پر ہیں فنا ہونے والے ہیں
Husband Wife Shayari in Urdu |
Romantic Poetry for Wife in Urdu |
Romantic Urdu Poetry 2 Lines |
Love Quotes for Wife from Husband in Urdu |
Most Romantic Poetry for Husband in Urdu |