یہ وہم جانے میرے دل سے کیوں نکل نہیں رہا
کہ اُس کا بھی مری طرح سے جی سنبھل نہیں رہا
کوئی ورق دکھا جو اشکِ خوں سے تر بتر نہ ہو
کوئی غزل دکھا جہاں وہ داغ جل نہیں رہا
میں ایک ہجرِ بے مُراد جھیلتا ہوں رات دن
جو ایسے صبر کی طرح ہے جس کا پھل نہیں رہا
تو اب مرے تمام رنج مستقل رہیں گے کیا
تو کیا تمہاری خامشی کا کوئی حل نہیں رہا
کڑی مسافتوں نے کس کے پاؤں شل نہیں کیے
کوئی دکھاؤ جو بچھڑ کے ہاتھ مل نہیں رہا
جواد شیخ
No comments:
Post a Comment