دیوار خواب میں کوئی در کر نہیں سکے
ہم لوگ شب سے آگے سفر کر نہیں سکے
شاید ابھی رہائی نہی چاہتے تھے ہم
سو اس کو اپنی کوئی خبر کر نہیں سکے
ہم لوگ تیری کھوج میں پہنچے میان_شںب
بھٹکے کچھ اس طرح کہ سحر کر نہیں سکے
ہم کار زندگی کی طرح کار عاشقی
کرنا تو چاہتے تھے مگر کر نہیں سکے
آنکھوں پہ کس کے خواب کا پردہ پڑا رہا
ہم چاہ کے بھی خود پہ نظر کر نہیں سکے
تم سے بھی پہلے کتنوں نے کھائی یہاں شکست
دنیا کو فتح تم بھی اگر کر نہیں سکے؟
مہندر کمار ثانی
No comments:
Post a Comment